غزہ تباہی اور غم کی تصویر بن گیا‘ برطانوی وزیر سعیدہ وارثی احتجاجاً مستعفی
غزہ (اے ایف پی+ رائٹر+ آن لائن+ نوائے وقت رپورٹ) 29 روز تک فلسطینیوں کو آگ اور خون میں نہلانے کے بعد اسرائیلی فوج غزہ سے واپس چلی گئی اور اسرائیل اور حماس کے درمیان 72 گھنٹے کیلئے جنگ بندی شروع ہو چکی ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صہیونی فوج نے غزہ میں واقع تمام بارودی سرنگوں کو ختم کرنے کا آپریشن مکمل کر لیا۔ امریکہ نے بھی عارضی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ نے سیزفائر کا فیصلہ کیا ہے، امریکی نائب مشیر برائے قومی سلامتی ٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ یہ حماس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ جنگ بندی جاری رکھے۔ دریں اثناء عرب ممالک کی درخواست پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ اجلاس آج ہو گا اور اس میں اعلیٰ اہلکار غزہ بحران پر رپورٹ پیش کریں گے۔ عالمی میڈیا کے مطابق اگرچہ اس وقت تین روزہ جنگ بندی ہے تاہم رفاہ اور غزہ پٹی کی صورت حال انتہائی دردناک دکھائی دیتی ہے۔ صہیونی فوج کی لگاتار بمباری نے ایک مستقل خوف پیدا کر رکھا ہے اور نعشوں سے اٹھنے والی بدبو لوگوں کو متاثرکر رہی ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں پڑی شہدا کی نعشیں ایک خوفناک منظر پیش کر رہی ہیں۔ ہر طرف اجڑی بستیاں ہیں اور ہسپتالوں میں نعشوں کو رکھنے کی جگہ ختم ہو چکی اور لوگوں کے پاس پرائیویٹ سرد خانوں میں اپنے پیاروں کو رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ غزہ کے مذہبی امور کے معاون وزیر حسن السیفی نے بتایا کہ ہمیں قبریں تیار کرنے سے روک رکھا ہے چنانچہ مرنے والوں کو عارضی طور پر اجتماعی قبروں میں ڈالا جا رہا ہے اور اسرائیلی حملوں کے ختم ہونے کے بعد انہیں کہیں اور دفن کر دیا جائے گا۔ ادھر حماس کے سربراہ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ غزہ میں نافذ العمل جنگ بندی حقیقی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس اپنے شہریوں کے لئے خود کو قربان کر سکتی ہے لیکن اپنے فوجیوں کو بچانے کے لئے اپنے شہریوں کو زندہ ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ دفاعی مقامات پر کنٹرول برقرار رہیگا۔ طویل جنگ کے دوران 1867 فلسطینی شہید ہوئے، 67 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے۔ دریں اثناء فلسطین کے ڈپٹی وزیر اکانومی تیسر عمرو نے کہا ہے کہ جنگ کی وجہ سے غزہ کو 4 سے 6 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ادھر فلسطین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوا، عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرینگے اور اس حوالے سے اپنی بھرپور کوشش کرینگے۔ عالمی میڈیا کے مطابق رفاہ اور غزہ کی صورتحال انتہائی دردناک دکھائی دیتی ہے، ہر طرف لاشے پڑے ہیں، غزہ غم کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون نے فریقین پر جنگ بندی پر عمل کرنے کیلئے زور دیا ہے اور قاہرہ میں امن مذاکرات میں شرکت کا مطالبہ کیا ہے۔ آن لائن کے مطابق اسرائیل کے سیٹلائیٹ ٹی وی چینل ٹو سے بات کرتے ہوئے فوجی ترجمان موتی الموز نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ’’ہم (اسرائیلی فوج) کبھی واپس نہیں جائیں گے، ہم غزہ کی پٹی میں موجود ہیں۔ ابھی وہاں ہمارے کرنے کے بہت سے کام باقی ہیں‘‘۔ دریں اثناء یونیسف نے کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت میں غزہ میں 408 بچے جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے والے بچوں میں 251 لڑکے اور 157 لڑکیاں شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والے بچوں میں 70 فیصد 12 سال سے کم عمر بچے تھے۔ علاوہ ازیں فلسطین کی حامی تنظیم نے لندن میں اسرائیل کی اسلحہ ساز فیکٹری کا محاصرہ کر لیا۔ نوجوانوں نے فیکٹری پر اسرائیلی کیخلاف بینرز لگا دیئے۔ فیکٹری کی چھت پر نوجوانوں نے احتجاج کیا۔ اسرائیلی اسلحہ فیکٹریوں کی بندش کا مطالبہ کیا۔
لندن (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) پاکستانی نژاد برطانوی وزیر سعیدہ وارثی غزہ پر برطانوی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔ سعیدہ وارثی نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹویٹر پر لکھا ہے کہ انتہائی دکھ کے ساتھ انہوں نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اپنا استعفی بھجوایا ہے۔ وہ غزہ پر برطانوی حکومت کی پالیسی کی مزید حمایت نہیں کر سکتیں۔ پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی برطانوی کابینہ میں مذہب اور سماجی امور کی وزیر تھیں۔ وہ کنزرویٹو پارٹی کی چئیرپرسن بھی رہ چکی ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون کی حکومت میں سعیدہ وارثی برطانوی کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون رکن تھیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ سعیدہ وارثی کے استعفے پر افسوس ہوا۔ انہوں نے بحیثیت وزیر بہتر کام کیا جس پر ان کے شکر گزار ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی وزیر سعیدہ وارثی کو خط لکھا ہے کہ مجھے آپ کا استعفٰی وصول کر کے افسوس ہوا غزہ کی موجودہ صورتحال ناقابل برداشت ہے افسوس ہے کہ برطانوی پالیسی کے بارے میں ہم بات چیت نہیں کر سکے۔ برطانیہ اسرائیل اور فلسطین کا قابل قبول حل چاہتا ہے۔ اسرائیل کو دفاع کا حق ہے تاہم بڑے پیمانے پر اموات پر برطانیہ کو تشویش ہے۔