Sindh Annual Budget 2015-2016

کراچی (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز) سندھ کا 2015-16ء کیلئے 7 کھرب 39 ارب 30 کروڑ 18 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے جس میں 12 ارب 72 کروڑ روپے کا خسارہ شامل ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں10 فیصد ایڈہاک اضافہ جبکہ انکے میڈیکل الائونس میں 25 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سندھ پولیس کی تنخواہیں پنجاب پولیس کی تنخواہوں کے برابر ہوں گی۔ سندھ کے وزیر خزانہ مراد شاہ نے اپوزیشن ارکان کے زبردست شور شرابے کے دوران بجٹ پیش کیا۔ بجٹ کے مطابق حکومت سندھ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو وسائل فراہم کرنے کیلئے بجٹ میں 64.458 ارب روپے مختص کئے ہیں، جو رواں مالی سال کے 58.623 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہیں۔ پولیس کے لیے 61.8ارب روپے مختص کئے ہیں جبکہ رواں مالی سال 50.915 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ رینجرز کے بجٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔جس کے تحت رینجرز کیلئے 2.448 ارب روپے مختص کئے گئے جبکہ رواں مالی سال میں 2.2 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ نئے مالی سال میں 6.23 ارب روپے بلٹ پروف جیکٹس، پولیس موبائل، ہیلمٹس، بلٹ پروف موبائل، اسلحہ اورکلوز سرکٹ کیمروں کی تنصیب کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ پولیس ٹرانسپورٹ کی خریداری کیلئے 2 ارب روپے مختص ہوں گے۔500 ملین روپے 200 گاڑیوں کوبلٹ پروف اور 100 گاڑیوں کو بم پروف بنانے میں استعمال ہوں گے۔ نئے ہتھیاروں کی خریداری کیلئے 2 ارب روپے، نگرانی کے کیمروں جدید تیکنیکی آلات کی خریداری کیلئے 6 ارب روپے سے زائد مختص ہوں گے۔ پولیس ٹریننگ سینٹرز کی اپ گریڈیشن کیلئے 250 ارب روپے، گواہوں کے تحفظ کیلئے وٹنس پروٹیکشن ایڈوائزری بورڈ قائم کردیا گیا ہے جو اس حوالے سے اقدامات کریگا۔ آئندہ سال نوجوانوں کو 25 ہزار سے زائد ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔ پولیس میں 15 ہزار بھرتیاں کی جائیں گی۔ محکمہ تعلیم میں 1484 نئی آسامیاں تخلیق کی جائیں گی۔ عدالتوں میں 718 نئی آسامیاں پُر کی جائیں گی، محکمہ صحت میں بھی کنٹریکٹ کی بنیاد پر لوگوں کو بھرتی کیا جائیگا۔ محنت کشوں کی کم از کم اجرت 12 ہزار روپے سے بڑھا کر 13 ہزار روپے کردی گئی ہے۔ خدمات پر سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 14 فیصد کردی گئی ہے۔ کئی مزید خدمات کو ٹیکس کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ سندھ انفراسٹرکچر سیس اور سٹامپ ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ آغا سراج کی سربراہی میں سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ بجٹ میں کراچی اور دیگر شہروں کے خصوصی ترقیاتی پیکیجز کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی البتہ حکومت سندھ نے تین نئے خصوصی پیکیجز کا اعلان کیا ہے، جن کیلئے میں 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ پہلے خصوصی پیکیج کے تحت رجسٹرڈ مستحق گھرانوں کو خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ریلیف دینے کیلئے ایک ہزار روپے فی خاندان مہیا کئے جائیں گے۔ یہ رقم عیدالفطر سے قبل ادا کردی جائیگی۔ دوسرے خصوصی پیکیج کے تحت کسی خاندان کے سربراہ یا کفیل کی اچانک موت کی صورت میں اس خاندان کو ایک لاکھ روپیہ حکومت کی طرف سے ادا کیا جائیگا۔ تیسرے خصوصی ترقیاتی پیکیج کے تحت نوجوانوں کو اپنے کاروبار شروع کرنے کیلئے قرضے دئیے جائیں گے۔ پائیدار ترقی بہتر سروس ڈیلیوری کیلئے تعلیم اور صحت کے نان سیلری بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ انفراسٹرکچر کی بہتری اور مرمت کیلئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تعمیرومرمت کا بجٹ بڑھا کر 20 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ تعلیم کے شعبے کیلئے سب سے زیادہ رقم 144.67 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس میں 13.2 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ شامل ہے۔ صحت کے شعبے کے لیے 57.49 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ان میں 13.224 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ شامل ہے۔ وصولیوں کا مجموعی تخمینہ 727 ارب روپے لگایا گیا ہے جن میں سے وفاق سے 482 ارب روپے ملیں گے، صوبہ براہ راست محصولات سے 99 ارب 55 کروڑ اور بالواسطہ محصولات سے 81 ارب حاصل کریگا، نان ٹیکس محاصل سے 19 ارب 50 کروڑ روپے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ مختلف صوبائی منصوبوں پر غیرملکی امداد کا تخمینہ 26 اب 98 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ مجوزہ بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کیلئے 214 ارب روپے جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 503 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے بجٹ میں 177 ارب روپے جبکہ بنیادی ڈھانچے کی مرمت اور بحالی کیلئے 20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم کیلئے مجموعی بجٹ 150 ارب، امن و امان کیلئے 65 ارب روپے، صحت کیلئے 57 ارب روپے 50 کروڑ روپے، توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے 25 ارب 90 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں 14 ہزار 224 نئی ملازمتیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کراچی میں پانی کی فراہمی کیلئے کے4 سکیم کیلئے 2.5 ارب روپے ہالیجی سے پیپری 6 کروڑ 50 لاکھ گیلن یومیہ پانی کیلئے ایک ارب 15 کروڑ روپے، کورنگی کراسنگ پر فلائی اوور کیلئے 10 کروڑ 12 لاکھ روپے، مہران ہوٹل نصرت بھٹو انڈرپاس کیلئے 22 کروڑ 30 لاکھ روپے ملیر 15 میں زیرتعمیر فلائی اوور منصوبے کیلئے مزید 53 کروڑ 26 لاکھ مختص کئے ہیں۔ شہر میں بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (اورنج لائن) کیلئے 2 ارب 8 کروڑ روپے ریڈلائن کیلئے 60 کروڑ روپے، حیدرآباد کیلئے 37 ارب روپے، سکھر کیلئے 27 ارب، لاڑکانہ ڈویژن کیلئے 33 ارب، میرپور خاص کیلئے 34 ارب بے نظیر آباد کیلئے 18 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کیلئے 144 ارب 67 کروڑ روپے مختص کئے گئے، صحت کا بجٹ 43 ارب سے بڑھا کر57 ارب 49 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ میڈیکل ایجوکیشن کیلئے 3 ارب 94 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کراچی میں میڈیکل کالج بنے گا۔ سندھ پولیس کی تنخواہوں کو پنجاب پولیس کی تنخواہ کے برابر کردیا گیا ہے سندھ پولیس میں 15 ہزار آسامیاں بھی پیدا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ رینجرز کیلئے 2 ارب 44 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 49.736 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو رواں مالی سال 2014-15 کے 33.425 کے مقابلے میں 48.7 فیصد زائد ہیں۔ کراچی میں پانچ ریپڈ بس منصوبوں پر کام شروع کر دیا جائے گا۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے سرکلر ریلوے کے ساتھ ماس ٹرانزٹ پروجیکٹ، پانچ بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے نئے مالی سال میں شروع کئے جائیں گے۔ حکومت سندھ نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے مختص 143.291 ملین روپے کا بجٹ بڑھا کر نئے مالی سال میں 156.534 ملین روپے کردیا ہے۔ تعلیمی نصاب میں اقلیتی برادری کی مذہبی کتابوں کو شامل کریگی جو کہ یو این ڈیکلیئریشن 1981ء کے مطابق ہے اقلیتی برادری کے ملازمت کا کوٹہ بھی 5 فیصد کردیا گیا ہے۔ تعلیم صحت، کے شعبوں سے تعلق خدمات، اخبارات میں شائع اشتہار سیلز ٹیکس سے مستثنی ہوں گے۔ حکومت سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ باند جاری کرے گی۔ قلمی ناموں سے لکھنے والوں پر 14 فیصد ٹیکس لگے گا۔ نجی شعبے کی خصوصی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سندھ کے ترقیاتی شعبے کیلئے 214 ارب رکھے گئے ہیں۔ تعلیمی بشمول طبی، تکنیکی تعلیم کا بجٹ تخمینہ بڑھا 144.67 ارب روپے کر دیا گیا۔ بجٹ کے دوران سندھ اسمبلی مچھلی بازار کا منظر پیش کرتی رہی۔ صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ کی تقریر کے دوران ہی اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے ہوئے سپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے۔ صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے اسمبلی میں بجٹ تقریر شروع کی تو اپوزیشن ارکان نے احتجاج شروع کر دیا، لیکن صوبائی وزیر خزانہ احتجاج کے باوجود تقریر کرتے رہے، اپوزیشن ارکان نے جب دیکھا کہ وزیر خزانہ تقریر بند نہیں کر رہے تو تمام اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے ہوئے سپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے اور تقریر روکنے کی کوشش کی جنہیں بعد میں بڑی مشکل سے منا کر واپس سیٹوں پر بٹھایا۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے بجٹ تقریر کی آغاز پر ہی شدید احتجاج کیا اور اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں نے ایک مرتبہ واک آؤٹ دوسری مرتبہ بائیکاٹ کیا۔ تحریک انصاف نے بائیکاٹ میں حصہ نہیں لیا۔ ایوان میں شور شرابے کے دوران چور چور شیم شیم ، نو نو کی آوازیں سنائی دیں سپیکر نے بعد ازاں اپوزیشن کے الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیتے ہوئے حذف قرار دے دیا ۔اجلاس میں میانمار کے مظلوم مسلمانوں کے لئے خصوصی طور پر فاتحہ کی گئی ۔ایم کیو ایم کے بیشتر ارکان اجلاس کے شروع میں شریک نہیں تھے بعد میں بھی ایم کیو ایم کے ارکان کی بڑی تعداد شریک نہیں ہوئی تاہم قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن اور پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد بجٹ تقریر کے دوران مسلسل موجود رہے ۔ چھوٹی اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کیا ۔پہلے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر نعرے بازی کی اس کے بعد سپیکر کے ڈائس کے سامنے آکر احتجاج کیا اور نعرے بازی کی ۔ایم کیو ایم کے ارکان احتجاج سے مسلسل لاتعلق رہے۔ بعد ازاں اپوزیشن کے ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور کچھ دیر کے بعد اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں کے ارکان ایوان میں آئے اور ایک مرتبہ پھر انہوں نے احتجاج کیا ، مسلم لیگ (فنکشنل) اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جبکہ تحریک انصاف کے ارکان ایوان میں بجٹ تقریر کے اختتام تک موجود رہے ۔

Share this;