Judicial Commission Reporting Issued Regarding General Election 2013

judicial commission

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ + آن لائن) عام انتخابات 2013ء میں دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل انکوائری کمشن کی رپورٹ کے مزید مندرجات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق الیکشن کمشن کی بے ضابطگیاں اپنی جگہ لیکن کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانا ثابت نہیں ہوا۔ انتخابی نتائج قریباً عوام کے مینڈیٹ کے عکاس تھے۔ انتخابی بے ضابطگیوں کا عوام کے دئیے گئے مینڈیٹ پر فرق نہیں پڑا۔ عام انتخابات میں منظم انتخابی دھاندلی کا کوئی منصوبہ نظر نہیں آیا۔ انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے سے متعلق کمشن کو کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جو مواد کمشن کو پیش کیا گیا اس سے بھی کوئی دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔ الیکشن کمشن کی بے ضابطگیوں سے کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا۔ الیکشن کمشن کی جانب سے کچھ بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔ الیکشن کمشن کے ارکان نے مؤثر طور پر کام نہیں کیا۔ اس کے عملہ کی تربیت بھی مناسب انداز نہیں کی گئی۔ شواہد کی روشنی میں 2013ء کے انتخابات شفاف اور قانون کے مطابق تھے۔ کمشن کے روبرو پیش کردہ ثبوت میں دھاندلی کے شواہد نہیں ملے جن پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا ان کیخلاف بھی کسی قسم کے شواہد نہیں ملے۔ پی ٹی آئی کا انتخابی دھاندلی سے متعلق تحقیقات کا مطالبہ بلاجواز نہیں منصفانہ تھا۔ اس کے مطالبات جائز تھے۔ ایسے شواہد نہیں ملے جن کی بنیاد پر انتخابات کو غیر شفاف قرار دیا جا سکے۔ 2013 کے انتخابات شفاف اور قانون کے مطابق تھے، انتخابات میں دھاندلی اور سازش کا کوئی شائبہ نہیں ملا، فارم15 کا پورے الیکشن اور اس کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تحریک انصاف کو الزامات ثابت کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا مگر ثبوت فراہم نہیں کئے جا سکے، الیکشن کمشن کی جانب سے بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں جنہیں آئندہ کے عام انتخابات میں درست کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان نے 86 روز کمشن کی سماعت کی اس حوالے سے 2 ان کیمرہ اور ایک چیمبر میں سماعت ہوئی۔ جوڈیشل کمشن کا فیصلہ تینوں ججوں نے متفقہ طور پر تحریر کیا، 237 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو عوامی رائے کے مطابق مینڈیٹ ملا ہے، منظم دھاندلی کے کوئی شواہد نہیں ملے، الزامات لگانے والے اپنے الزامات ثابت نہیں کرسکے۔ جو مواد کمشن کے سامنے پیش کیا گیا اس میں دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔ دھاندلی کی منصوبہ سازی کے الزامات بھی ثابت نہیں ہو سکے، الیکشن کمشنکے ارکان نے موثر کام نہیں کیا، ان کے سٹاف کی تربیت بھی مناسب انداز میں نہیں کی گئی۔ عام انتخابات2013 میں دھاندلی اور سازش کا کوئی شائبہ نہیں ملا۔ تحریک انصاف سمیت تمام پارٹیوں کو الزامات ثابت کرنے کا پورا پورا موقع دیا گیا مگر کسی پارٹی نے دھاندلی ثابت نہیں کی، کمشن نے جو مکمل طور پر آزاد تھا، سچ ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی۔ الیکشن کمشن کا دھاندلی سے متعلق سیاسی جماعتوں سے کوئی ناطہ نہیں ملا۔ تحریک انصاف کے الزامات میں کوئی بنیاد نہیں۔ 6 اپریل 2015 کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جوڈیشل کمشن بنایا گیا،9 اپریل 2015 کو اس کی پہلی سماعت ہوئی، آخری سماعت3 جولائی 2015 کو کی گئی۔ تحریک انصاف نے 16 گواہ پیش کئے، 11 ریٹرننگ افسروں نے بیانات ریکارڈ کرائے۔ مجموعی طور پر 69 گواہ پیش ہوئے۔ جوڈیشل کمشن میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی جانب شاہد حامد اور تحریک انصاف کے حفیظ پیرزادہ نے دلائل دیئے۔ رپورٹ کے مطابق انتخابات عوام کی حقیقی نمائندگی کرتے ہیں۔ نجم سیٹھی کے پنجاب میں اثرانداز ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ نجم سیٹھی نے 4 صوبائی سیکرٹریوں کے علاوہ پنجاب کی پوری بیورو کریسی تبدیل کی۔ ان کی بھانجی لیلیٰ خان کو پارٹی ٹکٹ دینے کو دھاندلی سے منسلک نہ کیا جائے۔ نجم سیٹھی کا چیئرمین پی سی بی بننا انتخابی دھاندلی کے زمرے میں نہیں آتا۔ الیکشن کمشن کی غلطیوں کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انتخابات عوامی مینڈیٹ کے ترجمان نہیں۔ مرکزی اور صوبائی الیکشن کمشن کے درمیان رابطے کا فقدان تھا۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی سے متعلق آر اوز کو درست طریقے سے ہدایات نہیں دی گئیں۔ کوئی گواہ دھاندلی کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام ر ہا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے 14، تحریک انصاف کی جانب سے16، ق لیگ14، الیکشن کمیشن کی جانب سے 15 اور گیارہ ریٹرننگ افسر بطور گواہ پیش ہوئے۔ کمشن کا پہلا اجلاس9اپریل کو ہوا، کمشن نے تحقیقات کرتے ہوئے3جولائی 2015ء کو کارروائی مکمل کرکے 23جولائی کو فیصلہ سنا دیا۔کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے سامنے دھاندلی کے بارے میں 3سوالات سامنے رکھے تھے، پہلا سوال تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی کی گئی ہے؟ دوسرا سوال تھا کہ کیا آپ کے پاس2013ء کے انتخابات بارے دھاندلی کے ثبوت ہیں؟ اور آخری سوال تھا کہ دھاندلی کی منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عملدرآمد کس نے کی؟ وزارت قانون کی ویب سائیٹ پر رپورٹ جاری کردی گئی ہے۔ رپورٹ کے آخری صفحات پر نتائج دیئے گئے ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی و قانون و انصاف اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ رپورٹ کو منظرعام پر لانے میں چند گھنٹوں کی تاخیر اس لئے ہوئی کہ قانونی تقاضے پورے کرنے ضروری تھے۔ قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد رپورٹ وزارت قانون کی ویب سائٹ پر جاری کردی گئی ہے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ افسروں کی مناسب تربیت نہیں کرائی گئی، اس وجہ سے انتخابات عمل میں خامیاں رہ گئیں۔ انتخابی قوانین سے مطابقت میں ناکامی ہوئی، الیکشن کمشن نے 6 لاکھ 50 ہزار پولنگ سٹاف کو صرف 19 ہزار ٹریننگ سیشن میں تربیت دی، انہیں بہت سی باتوں کے بارے میں بتایا ہی نہیں گیا، انتخابی عملے کے کئی افراد میں ووٹوں کے بیگ صحیح طریقے سے بند کرنے اور مناسب طریقے سے نتائج اکٹھے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ رپورٹ میں مقناطیسی سیاہی اور انگوٹھوں کے نشانات کا معاملہ بھی حل کر دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہ ہونے پر ووٹ کو جعلی نہیں کہا جا سکتا، جبکہ مقناطیسی سیاہی تجرباتی سطح پر بھی کارا ٓمد ثابت نہیں ہوئی تھی۔ 40 حلقوں کے فنگر پرنٹس کی رپورٹ نادرا نے پیش کی جس کے مطابق 50 فیصد انگوٹھوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ کاونٹرز فائلز پر انگوٹھوں کے نشانات ٹھیک طریقے سے نہیں لگائے گئے اس کے علاوہ بھی نشانات کی تصدیق نہ ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جیسے انگوٹھا صاف نہ ہویا انگوٹھے پر کوئی بھی نشان ہو،خواتین کی جانب سے مہندی کے استعمال کے باعث بھی مسائل ہوتے ہیں بزرگ افراد کے نشانات کی بھی تصدیق بہت مشکل ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نادرا کا انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا طریقہ کمپیوٹرائزڈ ہے ادارے میں کوئی ایسا ماہر نہیں جو انگوٹھوں کی تصدیق کر سکے۔خود کار سسٹم کی اپنی حدود ہیں جن کے بارے میں شک و شبہات ہمیشہ موجود رہتے ہیں،، سسٹم کی ایسی صورتحال میں انگوٹھوں کی تصدیق نہ ہونے پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ غیر تصدیق شدہ انگوٹھا جعلی ہے۔نادرا اور الیکشن کمشن نے مقناطیسی سیاہی کے معاملے پر الیکشن سے پہلے ٹیسٹنگ کی تاہم اس سے کوئی نتیجہ خیز بات سامنے نہیں ا ٓئی۔مقناطیسی سیاہی کے استعمال کا فیصلہ سابق ڈی جی نادرا علی ارشد حکیم اور ڈپٹی چیئرمین طارق ملک نے کیا تاہم مقناطیسی سیاہی مکمل طور پر قابل استعمال نہیں تھی، یہ کبھی بھی تجرباتی سطح پر مکمل طور پر کارآمد نہیں تھی۔رپور ٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمشن کی جانب سے عام انتخابات برائے 2013ء کے انتظامات اور انعقاد میں کافی خامیاں پائی گئیں اور انتخابی عمل میں وہ پلان کے مطابق الیکشن کا انعقاد نہیں کراسکا۔ آئندہ منصوبہ بندی کے بغیر انتخابات کرائے جائیں۔ انتخابات میں بے قاعدگیاں بھی ہوئی جن کی وجہ سے امید واروں کو الیکشن ٹربیونلز سے رجوع کرنا پڑا۔ آئین کے تحت الیکشن کمشن وہ ادارہ ہے جس کا کام صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد کراناہے تاہم اس سلسلے میں الیکشن کمشن کے عملے اور ریٹرننگ افسروں میں رابطوں کا فقدان پایا گیا، 2013ء کے عام انتخابات جلدی میں نہیں ہوئے بلکہ ان کی تیاری کیلئے ای سی پی کے پاس کافی وقت تھا تاہم وہ اسے بروئے کار نہیں لاسکے۔ پانچ سالہ مدت میں اس کا انتہائی اہم ٹاسک ہی انتخابات کا انعقاد تھا۔ رپورٹ کے مطابق کمشن کے سامنے آنے والے شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن کمشن کی جانب سے کی گئی منصوبہ بندی انتہائی ناقص تھی، سپریم کورٹ نے ستمبر 2012ء میں الیکشن کمشن کو خصوصی ہدایات دی تھیں، اس کے کردار کی نشاندہی کی تھی، الیکشن کمشن نے 2013ء کے انتخابات کے سلسلے میں دو اہم اجلاس بھی کیے جن میں تمام فریقین نے شرکت کی تاہم ان اجلاسوں کا کوئی فالو اپ سامنے نہیں آیا، الیکشن کمشن کی جانب سے الیکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے سیکرٹری ای سی پی کو جو ہدایات دی گئیں ان پر موثر رد عمل یا عملدرآمد دیکھنے کو نہیں ملا اور زمینی حقائق کے تحت بھی ان ہدایات پر عملدرآمد نہیں کریاا گیا 18 اپریل 2013ء کے ای سی پی کے خطہ میں پی ای سیز اور مارچ میں ریٹرننگ ڈپٹی ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسران کو دی گئی ہدایات پر بھی عملددرآمد نہیں کیا گیا، ان میں بیلٹ پیپرز تک رسائی کے فارمولے، آر اوز خصوصاً پنجاب میں الیکشن کمشن کے عملے کے درمیان رابطوں کی کمی پائی گئی، بیلٹ پیپرز کی گنتی اور تقسیم کے فارمولے میں بھی ہم آہنگی نہیں پائی گئی۔ بلوچستان میں کہیں 8 تو کہیں 10 فیصد بیلٹ پیپرز تک رسائی ممکن تھی، پرنٹنگ پریس بھی بیلٹ پیپرز کی اشاعت میں خطرات تھے کیونکہ ان میں مقررہ تعداد سے کم اشاعت کی گنجائش تھی، بیلٹ پیپرز کی ایک پریس سے دوسری جگہ منتقلی اور تاخیر سے سٹاف کو بھرتی کرنا بھی الیکشن کمشن کی خامیاں تھیں، اس لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر ایسا کام نہیں کرنا چاہئے۔

اسلام آباد (راجہ عابد پرویز/ خبرنگار) جوڈیشل کمشن نے اپنی رپورٹ میں الیکشن کمشن کے کردار پر سخت تنقید کی ہے۔ الیکشن کمشن اور صوبائی الیکشن کمشن کے درمیان کوارڈینیشن کے فقدان، افسران اور عملہ کی سرسری تربیت اور ناقص انتظامات کی وجہ سے نہ صرف اہم قسم کا ریکارڈ غائب پایا گیا بلکہ ریکارڈ مرتب کرتے وقت متعدد غلطیاں بھی کی گئیں۔ پولنگ افسران اور عملہ کیلئے الیکشن کمشن کی طرف سے ہدایت نامہ جسے فیلڈ بک کا نام دیا جاتا ہے میں کئی قسم کی غلطیاں ہیں جس کی وجہ سے پولنگ عملہ کو کام کرنے میں مناسب رہنمائی نہیں ہوسکی۔ جوڈیشل کمشن کے سامنے ڈی جی الیکشن کمشن شیر افگن نے بتایا کہ الیکشن سے قبل 19ہزار ٹریننگ سیشن کے ذریعے ملک بھر میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر، ریٹرننگ افسر اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسروں سمیت 6لاکھ 50 ہزار سٹاف کو ٹریننگ دی گئی۔ جوڈیشل کمیشن کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود عملہ نے پولنگ بیگز مناسب طریقے سے سیل نہیں کیے، ووٹ کے اندراج کے فارم کو غلط پر کیا، پولنگ اسٹیشنز پر آنے والے تمام سامان کو درست طریقے سے چیک نہیں کیا، یہاں تک کہ پولنگ آفسران کویہ تک معلوم نہیں تھا کہ فارم کیسے پر کئے جاتے ہیں۔ الیکشن کمشن کی ناقص پلاننگ اور قوانین سے عدم مماثلت کی وجہ سے بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن کے ناقص انتظامات کی وجہ سے کئی پولنگ اسٹیشنوں پر اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئی مگر وہاں پولنگ اسٹیشن قائم ہی نہیں کئے گئے، کچھ جگہوں پر پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے مگر وہاں پولنگ کا سامان اور عملہ نہیں بھیجا گیا۔ کئی سکولوں کو پولنگ اسٹیشن بنا دیا گیا اور وہاں پولنگ کا سامان بھی پہنچادیا گیا مگر وہاں پولنگ کے عملہ کی ڈیوٹیاں ہی نہیں لگائی گئیں جس وجہ سے ایسے پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ نہیں ہو سکی۔ جوڈیشل کمیشن نے الیکشن کمیشن میں مانیٹرنگ سیل کی عدم موجود کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن میں کوئی ایسا سیل موجود نہیں جو الیکشن سے قبل، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد کی صورتحال سے الیکشن کمیشن کو آگاہ رکھتا۔ جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے احکامات کہاں تک مانے گئے اور کن کن کو نہیں مانا گیا۔ جوڈیشل کمیشن نے صوبوں کی نمائندگی کرنے والے الیکشن کمیشن کے ارکان پر بھی تنقید کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کا انتخابی عمل اور الیکشن قوانین کے حوالے سے کردار محدود ہے، وہ اپیلوں کی سماعت سے آگے نہیں بڑھتے۔

Share this;